مولا ناشبلی نعمانی
(۱۸۵۷..........۱۹۱۴ء)
قصبہ بندول ضلع اعظم گڑھ، بھارت میں ۱۸۵۷ء میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد شیخ حبیب اللہ وکیل تھے شبلی نے بھی کچھ دن وکالت کی ، پھر علی گڑھ کالج میں فارسی کے استاد مقرر ہو گئے ۔ وہاں انھیں سرسید ، حالی محسن الملک اور آرنلڈ کی صحبت سے مستفید ہونے کا موقع ملا ۔۱۸۹۲ء میں آرنلڈ کے ساتھ شبلی نے مصر، شام قسطنطنیہ اور دوسرے اسلامی ممالک کا سفر کیا۔ سرسید کی وفات ( ۱۸۹۸ء) کے بعد علی گڑھ کالج سے استعفی دے کر ، اعظم گڑھ چلے گئے ۔ پھر حیدرآباد دکن کے دائرۃ المعارف کی نظامت کا عہد وسنجالا ۔ اسی دوران میں ان کی کوشش سے لکھنو میں’’ ندوۃ العلما‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ اخیر عمر میں اعظم گڑھ میں انھوں نے ایک عظیم ادارہ دارالمصنفین‘ قائم کیا، جو آج بھی کام کر رہا ہے ۔ شبلی شاعر بھی تھے لیکن ان کی شہرت کا مدار زیادہ تر ان کی نثر پر ہے۔ان کا شمار اردو کے بڑے نثر نگاروں میں
ہوتا ہے۔ شبلی نے اگر چہ متنوع موضوعات مثلا : تاریخ بتنقید ، سوانح سیرت ، تذکرہ، ادب، معاشرت،عقائد ، تصوف اور سیاست پر قلم اٹھایا مگر ان کے طرز اظہار میں ادبیت کی شان موجود ہے ۔ جوش بیان ،ایجاز واختصار، روانی و برجستگی محققانہ انداز ،غنائیت اور شعریت ان کے اسلوب بیان کی نمایاں خصوصیات میں شبلی کی تمام ادبی کاوشوں سے قطع نظر ، ان کا سب سے بڑا ادبی کارنامہ، ان کا انداز بیان ہے۔ شبلی کی متعدد تصانیف ہیں۔اہم تصانیف میں شعراجم ‘‘ پانچ جلد میں ’الفاروق ‘‘’المامون‘‘’’سیر صعمان’’الغزالی‘‘ ’سوانح مولا ناروم‘’ سفر نامہ روم و مصر و شام‘اور’’سیرۃ النبی ‘‘
شامل ہیں۔
اس وقت جب کہ دعوت حق کے جواب میں ہر طرف سے تلوار کی جھنکار میں سنائی دے رہی تھیں ، حافظ عالم نے مسلمانوں کو دارالامان مدینہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا لیکن خود وجو داقدس صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جوان ستم گاروں کا حقیقی ہدف تھا، اپنے لیے حکم خدا کا منتظر تھا۔
نبوت کا تیرھواں سال شروع ہوا اوراکثر صحابہ مدینے پہنچ چکے ، تو وحی الہی کے مطابق:آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے بھی مدینے کا عزم فرمایا۔ قریش نے دیکھا کہ اب مسلمان مدینے میں جا کر طاقت پکڑے جاتے ہیں اور وہاں اسلام پھیلتا جا تا ہے۔ چنانچہ لوگوں نے مختلف رائیں پیش کیں۔ ایک نے کہا: محمد کے ہاتھ پاؤں میں زنجیر میں ڈال کر مکان میں بند کر دیا جائے ۔ دوسرے نے کہا: جلا وطن کر دینا کافی ہے ۔ابوجہل نے کہا: ہر قبیلے سے ایک شخص انتخاب ہواور پورا مجمع ایک ساتھ مل کر بتلواروں سے ان کا خاتمہ کر دے۔اس صورت میں ان کا خون تمام قبائل میں بٹ جاۓ گا اور آل ہاشم اکیلے تمام قبائل کا مقابلہ نہ کرسکیں گے ۔اس اخیر راۓ پراتفاق ہو گیا اور جھٹ پٹے سے آ کر رسول صلى الله عليه وآلہ وسلم کے آستانہ مبارک کا محاصرہ کرلیا۔اہل عرب زنانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے، اس لیے باہرشہرے رہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسنکلیں، تو بی فرض ادا کیا جاۓ ۔ رسول صلى الله عليه و آلہ وسلم سے قریش کو اس درجہ عداوت تھی ، تا ہم آپ کی دیانت پر بی اعتماد تھا کہ جس شخص کو پکچھ مال یا اسباب امانت رکھنا ہوتا تھا، آپ ہی کے پاس لا کر رکھتا تھا۔ اس وقت بھی آپ کے پاس بہت سی امانتیں جمع تھیں ۔ آپ کو قریش کے ارادے کی پہلے سے خبر ہو چکی تھی ۔ اس بنا پر جناب امیر حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو بلا کرفرمایا مجھ کو ہجرت کا حکم ہو چکا ہے، میں آج مدینے روانہ ہو جاؤں گا تم میرے پلنگ پر میری چادر اوڑھ کر سو رہو، بیج کو سب کی امانتیں جا کر واپس دے آنا ۔ یہ سخت خطرے کا موقع تھا۔ جناب امیر کو معلوم ہو چکا تھا کہ قریش آپ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں اور آج رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کابستر خواب قتل گاہ کی زمین سے لیکن فاتح خیبر کے لیے قتل کا وفرش گل تھا۔
کفار نے جب آپ کے گھر کا محاصرہ کیا اور رات زیادہ گزرگئی ، تو قدرت نے ان کو بے خبر کر دیا۔ حضرت ان کوسوتا چھوڑ کر باہر آۓ ، کعبے کو دیکھا اور فرمایا:’’ مکہ! تو مجھ کو تمام دنیا سے زیادہ عزیز ہے ،لیکن تیرے فرزند مجھ کو رہنے نہیں دیتے ‘‘ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے پہلے قرارداد ہو چکی تھی۔ دونوں صاحب پہلے جبل ثور کے غار میں جا کر پوشیدہ ہوۓ ۔ بی غارآج بھی موجود ہے اور بوسہ گاہ خلائق ہے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے بیٹے عبداللہ، جونو خیز جوان تھے، شب کو غار میں ساتھ ہوتے ، صبح منھ اندھیرے شہر چلے جاتے اور پتا لگاتے کہ قریش کیا مشورے کر رہے ہیں۔ جو کچھ خبر ملتی ، شام کو آ کر آ نحضرت سے عرض کرتے ۔حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی منکا غلام کچھ رات گئے ، بکریاں چرا کر لاتا اور آپ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عندان کا دودھ پی لیتے ۔ تین دن تک صرف یہی غذا تھی لیکن ابن ہشام نے لکھا ہے کہ روزانہ شام کو اسماء رضی اللہ تعالی عنہ گھر سے کھانا پکا کر غار میں پہنچا آتی تھیں ۔اسی طرح تین راتیں غار میں گزار ہیں۔
صبح قریش کی آنکھیں کھلیں تو پلنگ پر آ نحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بجاۓ جناب امیر تھے۔ظالموں نے آپ کو پکڑا اور حرم میں لے جا کر تھوڑی دیر محبوس رکھا اور چھوڑ دیا۔ پھر آ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکلے۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار کے دہانے تک آ گئے ۔آہٹ پا کر حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عیغمزدہ ہوۓ اور آنحضرت سے عرض کیا کہ اب دشمن اس قد رقریب آ گئے ہیں کہ اگر اپنے قدم پر ان کی نظر پڑ جاۓ ، تو ہم کو دیکھ لیں۔ آپ نے فرمایا: لاتحزن إن الله معنا ( سورۃ توبه : ۴۰ )
”گھبراؤنہیں، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
قریش نے اشتہار دیا تھا کہ جو شخص محمد کو یا ابوبکر کو گرفتار کر کے لائے گا ، اس کو ایک خون بہا کے برابر (یعنی سواونٹ ) انعام دیا جاۓ گا۔ سراقہ بن خشم نے شنا، تو انعام کی امید میں نکلا۔عین اس حالت میں کہ آپ روانہ ہور ہے تھے، اس نے آپ کو دیکھ لیا اورگھوڑا دوڑا کر قریب آ گیا ،لیکن گھوڑے نے ٹھوکر کھائی ، وہ گر پڑا۔ ترکش سے فال کے تیر نکالے کہ حملہ کرنا چاہیے یا نہیں؟ جواب میں ’’نہیں‘‘ نکلا لیکن سواونٹوں کا گراں بہا معاوضہ ایسا نہ تھا کہ تیر کی بات مان لی جاتی ۔ دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوا اور آگے بڑھا۔ اب کی بارگھوڑے کے پاؤں گھٹنوں تک زمین میں چنس گئے ۔ گھوڑے سے اتر پڑا اور پھر فال نکالی ، اب بھی وہی جواب تھا ، لیکن مکت رتجر بے نے اس کی ہمت پست کر دی اور یقین ہو گیا کہ یہ کچھ اور آ ثار ہیں ۔ آنحضرت کے پاس آ کر قریش کے اشتہار کا واقعہ سنایا اور درخواست کی کہ مجھ کو امن کی تحریرلکھ دیجیے ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے غلام عامر بن فہیرہ نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر فرمان امن لکھ دیا۔ ر جوش میں ہے تشریف آوری کی خبر مدینے میں پہلے پہنچ چکی تھی ۔ تمام شہر ہمہ تن چشم انتظار تھا۔ معصوم بچے فخر اور جوش میں کہتے پھرتے تھے کہ پیغمبر آ رہے ہیں ۔لوگ ہر روز نڑ کے سے نکل نکل کر شہر کے باہر جمع ہوتے اور دو پہر تک انتظار کر کے حسرت کے ساتھ واپس
چلے آتے ۔ایک دن انتظار کر کے واپس جا چکے تھے کہ ایک یہودی نے قلعے سے دیکھا اور قرائن سے پہچان کر پکارا:’’ اہل عرب ! لوتم جس کا انتظار کرتے تھے، وہ آ گیا۔‘‘ تمام شہر تکبیر کی آواز سے گونج اٹھا۔
(سیرة النبی)
مشق
مختصر جواب دیں۔
(الف) ہجرت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے کیا مراد ہے؟
(ب) رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نبوت کے کون سے سال ہجرت فرمائی؟
(ج) حضرت امیر رضی اللہ تعالی عنہ سے کون سی شخصیت مراد ہے؟
(د) رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عہ سے کیا ارشادفرمایا ؟
(س) حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہ کون تھیں؟ قریش نے رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اورحضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عن کو گرفتار کرنے کا کیا انعام مقرر کیا؟
(ز) سراقہ بن بخشم کیسے تائب ہوا؟
متن کو مد نظر رکھتے ہوۓ موزوں الفاظ کی مدد سے خالی جگہ پر کر میں ۔
(الف) حافظ عالم نے مسلمانوں کو دارالامان ۔۔۔۔۔۔.. ۔۔۔..کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔ ( مکہ، مد بینہ،طائف ، بین )
(ب) نبوت کا..۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سال شروع ہوا اور اکثر صحابہ مدینے پہنچ چکے، تو وی الہی کے مطابق: آنحضرت نے بھی مدینے کا عزم فرمایا۔ ( بارھواں ، دسواں ، تیرھواں ، پندرھواں )
(ج) اس وقت بھی آپ کے پاس بہت ....۔۔۔۔۔۔....... جمع تھیں ۔ ( تلوار میں، امانتیں بھجور میں نعمتیں ) (ر).۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.. کومعلوم ہوچکا تھا کہ قریش آپ کے قتل کا ارادہ کر چکے ہیں ۔ ( جناب ابوبکر، جناب عمر، جناب امیر، جناب عثمان)
(ہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سے پہلے قرارداد ہو چکی تھی ۔ ( حضرت عمر ، حضرت زید ، حضرت علی ، حضرت ابوبکر )
(د) اسی ط۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔........را تیں غار میں گزار ہیں ۔( تین ، چار، پانچ ،سات )
درج ذیل بیانات میں سے درست کی نشاندہی ( ۷ ) اور غلط کی نشان دہی ( × ) سے کر میں ۔
(الف) دعوت حق کے جواب میں ہر طرف سے تلوار کی جھنکار میں سنائی دے رہی تھیں ۔
(ب) حافظ عالم نے مسلمانوں کو دارالامان حبشہ کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا۔
(ج) نبوت کے تیرھو میں سال اکثر صحابہ مدینے پہنچ چکے تھے۔
(د) سب لوگوں نے ایک ہی رائے پیش کی ۔
(۱) اہل عرب زنانہ مکان کے اندر گھسنا معیوب سمجھتے تھے ۔
(و) فاتح خیبر کے لیے قتل کا وفرش گل تھا۔
(1) حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا غلام رات گئے ، بکریاں چرا کر لاتا۔
(ح) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی نما گھر سےکھانا پکا کر غار میں پہنچا آتی تھیں ۔
(ط) صبح قریش کی آنکھیں کھلیں تو پلنگ برآ نحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بجائے جناب امیر رضی اللہ تعالی مر تھے ۔
(ی) نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر مدینے میں پہلے پہنچ چکی تھی ۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें