سوال ’’ادب کی پہچان‘‘ کے حوالے سے ادب کی
مختصر تعریف کیجئے ۔
جواب: ہم ادب کی پہچان کس طرح کر میں ایک فنکار اپنے فن کا نمونہ پیش کرنا ہے ۔ وہ کتنا اولی ہے عبدالغنی کے زیر انصاب مضمون ادب کی پہچان میں مکمل زوراسی بات پر دیا گیا ہے کہ ہر تحر مراد بی نہیں ہوتی اور ہر ادب کا معیاری ہونا بھی لازمی ہے ایک فنکا را پنا جوادلی نگارش پیش کرتا ہے وہ فنی نمونہ جسے پڑھ کر ہمارے اندر سرور وانبساط کی کیفیت پیدا ہو اور ہم اس سے آسودگی محسوس کر میں وہ تمام نگارشات ادب میں شامل ہوتی ہیں ۔
1
سوال مکتوب نگاری کے فن سے اپنی واقفیت کا اظہار کیجئے۔
جواب: مکتوب نگاری اردو نثر کی ایک قسم ہے۔ اردو میں مکتوب نگاری کی روایت بہت قدیم ہے۔ یہ رشتہ داروں اور احباب کی خیرت دریافت کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ ساتھ ہی ایک دوسرے کے ساتھ تبادلہ خیالات کا ایک موثر روایتی ذریعہ ہے ۔ مکاتیب با خطوط بالکل ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں کیوں کہ اس میں لکھنے والا اکثر اپنے دلی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اور اپنے جذبات کو تحریر کے سہارے مخاطب تک پہنچانے کی کوشش کرتا ہے ۔مکتوب نگار اپنے احوال وکوائف کے ساتھ اپنے معاشرتی روایات اور ذاتی احساسات کو بھی ضبط تحریر میں لاتا ہے ۔
سوال بھیم راؤ کے حصول تعلیم پر پانچ جملے لکھئے۔
جواب: ۱۹۱۲ء میں بھیم راؤ امبیڈ کر نے ایلینسٹن کالج سے بی اے پاس کیا اس کے بعد دو بڑودواسٹیٹ کے تعلیمی و ظیفے پر اعلی تعلیم حاصل کر نے کے لئے امریکہ چلے گئے اور اردو کولمبیا یونیورسٹی میں داخلہ لیا جہاں معاشیات کے موضوع پر ایم اے پاس کیا پھر ۱۹۱۲ء میں اسی یونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کیا اسی سال وہ انگلینڈ چلے گئے اور لندن اسکول آف اکنامکس (London School of Economics) میں داخلہ لیا اور اس کے ساتھ پیرسٹری کی تیاری بھی کرتے رہے ۔ سوال زمین بھی جانداروں کے لئے مناسب ہے یا غیر مناسب ہے؟ جواب: ہم لوگ جس زمین پر بستے ہیں وہ ایک سیارہ ہے یہ زمین بھی جانداروں کے لئے بہت مناسب ہے ۔ دوسرے سیاروں کا ماحول پودوں اور جانوروں کے لئے ٹھیک نہیں ہے یا تو یہ بہت ہی گرم میں یا بہت ٹھنڈی ہماری زمین کا درجہ حرارت (Temperature) بہت موزوں اور معتدل ہے۔اس لئے یہاں طرح طرح کے پودے ، انسان اور جانور پاۓ جاتے ہیں ۔
2
سوال محمود کے کردار پر پانچ جملے لکھئے۔
جواب: ڈاکٹر محد محسن کے زیر انصاب افسانہ فرار‘ میں محمود مرکزی کردار ہے ۔ اس سال کی عمر میں محمود کے والد کا انتقال ہو جا تا ہے اور چند سال کے بعد اس کی والدہ کا بھی انتقال ہو جا تا ہے چنانچہ قسمت نے اسے تنگ دست ماموں کے گھر پہنچا دیا زندگی میں مصائب اور دشواریوں کا آغاز ہو گیا ناموافق حالات نے جتنا ٹھوکر لگا اسی قدر اس کا تجربہ بڑھتا گیا۔ کم عمری میں ہی محمود مستقل مزاج اور عزم کی پختگی کامل نمونہ بن گیا اعلی تعلیم کے دوران وہ یو نیورٹی کے ہاسٹل میں رہنے لگا جہاں اس کے ذہن میں چور دروازے سے رومانیت داخل ہونے لگی۔ یو نیورسٹی کی تعلیم سے فارغ ہو کر محمود نے مقابلہ جاتی امتحان میں حصہ لیا اور ڈ پٹی کلکٹر‘ بن گیا۔
سوال مضمون کے بارے میں پانچ جملے لکھئے۔
جواب: زیر نصاب مضمون’’ریا‘‘ سرسید احمد خان کا ایک اصلاحی مضمون ہے ۔اس مضمون میں سرسید نے ریا کی نحوست اور خرابیوں کو بیان کیا ہے ۔ ریا ایک طرح کا اخلاقی عیبجا۔ ہے جس کا آج کے لوگ یوں تجزیہ کرتے ہیں کہ دل میں بات کچھ ہو اور ظاہر کچھ اور کیا جائے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریا کا عیب صرف اس حد تک محدود نہیں رہتا۔ بلکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ۔ سمجھنے والا خودمغالطے میں رہتا ہے اور اسے یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ وہ ریا کاری کر رہا ہے۔ ریا کاری کا تعلق صرف ظاہری عمل اور رد عمل سے نہیں ہے ۔ بلکہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ آدمی کسی شے ۔ یا غلط فہمی کی وجہ سے ایسے اقدامات کرتا ہے جس کے کرنے پر خودا سے پتہ نہیں چلتا کہ وہ میچ رہا ہے یا غلط ۔ دراصل اسی داخلی پیچیدگی کا نام دیا ہے ۔
سوال کیا سورج گہن کوپنی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں؟ اگر نہیں تو کیوں؟
جواب: سورج گہن کونگی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ اگر سورج گہن کوئی آنکھوں سے دیکھا جائے گا تو سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ عین ممکن ہے کہ ینگی آنکھ سے سورنا گہن کو سیکھنے والے کی بینائی جاتی رہے ۔ ہاں کسی برتن میں پانی رکھ کر اس پانی میں سورج کہ کے عکس کو اگر دیکھا جاۓ تو اس سے کوئی نقصان نہیں ہوگا یا پھر سورج گہن کے لئے ایک خاص قسم کا شیشہ آتا ہے اس شیشہ میں گہن کو دیکھنے سے بھی آنکھ کو کوئی نقصان نہیں ہوتا ہے ۔
سوال شہباز نے اپنے خط میں اپنی بیٹی کو جس بات کی تلقین کی ہے،اسے اجاگر کیجئے۔
جواب: شہباز نے اس خط میں اپنی بیٹی کو اپنا سبق اچھی طرح یادکرنے کی تلقین کی ہے اور ان سے دریافت کیا ہے کہ وہ اپنا سبق یادکر رہی ہیں کہ نہیں ، اپنی دونوں بیٹیوں کے لئے وہ دعاء کرتے ہیں کہ وہ پڑھ کر بہتر سے بہتر زندگی کے لئے تیار ہو جائیں۔ وہ محرم کی چھٹیوں میں ضرورانکے پاس آئیں گے۔ اب اگر اس وقت و وسبق صیح طور پر ادا نہ کرسکیں تو مشکل ہو گی اور انعام بھی جاتارہیگا۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें