مختصر افسانہ
مختصر افسانہ اردو نثر کے تخلیقی ادب میں سب سے کم عمر اور نوخیز صنف ہے لیکن اس صنف نے اپنی کم عمری اور نوخیزی کے باوجودای ٹی پی اور مقبولیت حاصل کر لی جس سے سرسری طور پر گزر جانا کسی کے لئے بھی اب ممکن نہیں ہے۔ یہ صنف قدم قدم پر فکر وفن کا ایسا جلال و جمال پیش کرتی ہے جس سے ذہن کو نور اور دل کو سرور حاصل ہوتا ہے۔ اس کے آئینے میں ہمیں جہاں اپنے ملک، قوم اور سماج کی تصویر نظر آتی ہے، وہیں ہماری زندگی میں پیش آنے والی دشوار ہوں یاغم والم اور مسرت و شادمانی کی جھلکیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ کہا جا تا ہے کہ اردو میں مختصر افسانہ مغربی ادب کے زیر اثر وجود میں آیا اور بہت کم عرصے میں اس نے اردو میں ایک اہم صنف کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کر لی اور عام لوگوں کے درمیان اسے خوب مقبولیت بھی حاصل ہوئی۔ افسانے کی متعدد تعریفیں کی گئی ہیں۔ ایک ممتاز مغربی ادیب کا کہنا ہے کہ افسانہ ایسی نثری کہانی ہے جو ایک ہی نشست میں پڑھی جاسکے۔ کسی نے یہ بھی کہا ہے کہ افسانے میں بنیادی شئے وحدت تاثر ہے۔ بہر حال ادب اور فن کے ماہرین نے اس کی جو بھی تعریفیں بیان کی ہیں ان سب کے درمیان ایک خیال مشترک ہے کہ افسانہ نثر میں ایک مختصر بیانی تخلیقی صنف ہے ۔ افسانے میں کسی ایک کردار یا کرداروں کے ایک مخصوص گروہ کے نقوش یا ڈینی کشمکش کو نمایاں کیا جا تا ہے۔ افسانے میں واقعات کی تفصیل ، کرداروں کی گفتگو اور منظرو ماحول کی پیش کش بہت نپی تلی اور متوازن ہوتی ہے۔
اردو میں مختصر افسانے کا آغاز بیسویں صدی کی ابتدا میں ہوا اور اس صنف نے تقریبا اپنے سوسالہ سفر میں کئی نشیب وفراز دیکھے ہیں۔ متفقہ رائے کے مطابق اردو کا پہلا مختصر افسانہ نصیر اور خدیجہ کو تسلیم کیا جاتا ہے جو1903 میں شائع ہوا۔ اس کے مصنف راشدالخیری تھے۔ اس کے بعد پریم چند اور سجاد حیدر یلدرم کے افسانے سامنے آۓ۔ 1936 میں ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوا۔ اس سے چند سال قبل انگارے کے نام سے ایک مجموعہ شائع ہو چکا تھا، جس نے موضوع اورفن دونوں اعتبار سے اردو کے مختصر افسانے کی تاریخ میں نئے تجربوں کی بنیاد ڈالی اور یہ مجموعہ آج بھی ایک سنگ میل کی
حیثیت رکھتا ہے۔ 1960ء کی دہائی میں جدید افسانہ نگاروں کی ایک نئی نسل ابھر کر سامنے آئی جس نے حقیقت نگاری سے انحراف کیا اور افسانے میں علامت استعارہ تمثیل اور تجرید کی آمیزش کر کے اردو کے افسانے کا افق مزید وسیع کیا۔ اس عہد کے افسانہ نگاروں میں انتظار حسین ، سریندر پرکاش ، انور سجاد، بلراج کول ،غیاث احمد گری اور کلام حیدری وغیرہ بہت اہم ہیں۔ اردو افسانے کی تاریخ میں منشی پریم چند، سجاد حیدر یلدرم، سعادت حسن منٹو، راجندر سنگھ بیدی، عصمت چغتائی ، خواجہ احمد عباس، سیل عظیم آبادی، اختر اور مینوی، رامحل، شکیل اختر اور جوگندر پال کی خدمات کو ہم بھی فراموش نہیں کر سکتے ہیں۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें