نظم کا خلاصہ اور مرکزی خیال
سوال نظم’’بجلی کا کھمبا‘‘ کا خلاصہ لکھئے
جواب: - نصاب میں شامل نظم ’’بجلی کا کھمبا‘‘ ایک آزاد نظم ہے ۔ اس نظم میں ندا ، فاضلی نے سائنس کے جدید ایجادات پر تفصیل سے روشنی ڈالتے ہوۓ اس حقیقت کو واضح ابر کرنے کی کوشش کی ہے کہ جب سے سائنسی ایجادات ہوۓ ہیں ، انسانی سماج میں بہت سی خرابیاں آگئی ہیں ۔ ان میں اخلاقی سطح پر گراوٹ بھی ہے ۔ ان خامیوں کے حوالے سے شاعر نے ساج میں پھیلی ہوئی بداخلاقی اور دیگر خرابیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔نظم ’’بجلی کا کھمبا‘‘ کے پردے میں ندا فاضلی نے طرح طرح کے سماجی خرابیوں کی نشاندہی کی ہے۔ نظم کے آخری شعر میں شاعر نے بالواسطہ طور پر سائنسی ایجادات اور اس کے نتیجہ میں مادی خرابیوں کی طرف اشاروں میں نشاندہی کی ہے ۔اور پس منظر میں سائنسی دور سے قبل کے عہد کا آج کے موجودہ سائنسی دور سے موازنہ کیا ہے۔ شاعر کا کہنا ہے کہ جس زمانے میں بجلی کا کھمبا ایجاد نہیں ہوا تھا لوگ کراسن تیل کے دور میں زندگی گذار رہے تھے۔اس قدیم زمانے میں گر چہ بجلی کا کھمبانہیں تھا اور روشنی کی کمی تھی لیکن لوگوں کے دل ضرورمنور تھے۔ چاند کی روشنی میلی نہیں تھی لوگ اس کی فطری روشنی سے استفادہ کرتے تھے ۔اب پہلے کے مقابلے میں بجلی کی روشنی تو بہت زیادہ ہے لیکن لوگوں کے دلوں میں انسانیت کی روشنی بجھ چکی ہے ۔ فکری اعتبار سے اسے اخلاقی نظم کے زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔
1
سوال شامل نصاب حمد کا خلاصہ لکھئے ۔
جواب: زیر نصاب حمد خداۓ عز وجل شہنم کمالی کی بے حد خوبصورت اور بہترین حمد ہے ۔ حمد کے اشعار کو پڑھنے سے
محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نے اس حمد کومشق خداوندی میں ڈوب کرخداے وحدہ لاشریک سے بے پناہ محبت وعقیدت کا اظہار کیا ہے۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ نا کائنات کی تعریف وتوصیف الفاظ میں ممکن نہیں ہے اس کے باوجودمومن بندہ اپنی بساط مجرا بات کی کوشش کرتا ہے کہ حتی الامکان خدا کی تعریف و توصیف میں کوئی کمی ندرہ جاۓ ۔ اس حمد میں شاعر یہ کہتے ہیں کہ اللہ تعالی دونوں جہان کا پیدا کر نے والا ہے۔از کی پاک ذات ایسی ہے کہ نہ تو کوئی اس کی ہمسری کر سکتا ہے اور نہ اس کی مثال دی جاسکتی ۔ وہ دونوں جہان کے مخلوق کو رزق پہنچا تا ہے اور ساری کائنات کے تمام جانداروں کی موت حیات کا مالک ہے۔ کائنات کے ذرے ذرے میں اس کا جلوہ نظر آتا ہے ہر طرف اس کا حسن اور جمال کا پرتو پھیلا ہوا ہے۔ اللہ تعالی نے کائنات کے اند را یک نظام حیات بنا رکھا ہے جس کے ذریعہ اہل م دانش اس کی ذات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اگر خدائے تعالی کی عظمت و کبریائی لاکھوں سال تک مسلسل بیان کیا جاۓ تو وہ بھی نا کافی ہوگا۔ اگر کسی معمولی بندے پر خدا کا مہربانی کی نظر پڑ جاۓ تو وہ بندہ کامیاب و کامران ہو جا تا ہے۔
.سوال زیر نصاب نظم’’مناظر قدرت‘‘ کا مرکزی خیال پیش
جواب: زیر نصاب نظم’’ مناظر قدرت‘‘ پنڈت برج نارائن چکبست کی عمدہ نظم ہے۔ اس نظم میں چکبست نے اپنے ملک ہندوستان کے فطری مناظر اور اس کے حسن و جمال کی بھی تعریف کی ہے۔ ساتھ ہی اپنے مادر وطن ہندوستان کے عظمت در بینہ کے گیت بھی گاۓ ہیں ۔ اس نظم کا ایک خاص تاریخی پس منظر ہے ۔ وہ یہ ہے کہ ایک بار شاعر نے دہرہ دون کے پہاڑی علاقوں کا سفر کیا تھا۔ یا یک سیاحتی سفر تھا ۔ دہرہ دون جو صو بہ اترانچل کا صدر مقام ہے اور قدیم زمانے سے ہی اس شہر کا شمارخوبصورت پہاڑی اور سیاحتی علاقوں میں ہوتا ہے دور کے علاقوں اور غیر ممالک کے سیاح دہرہ دون کے خوبصورت فطری مناظر سے لطف ہونے کے لئے دور دراز کا سفر کر کے آتے ہیں ۔ شاعر نے دہرہ دون کے اس تاریخی سفر میں اپنی آنکھوں سے جو پڑھ دیکھا اور جو کچھ محسوس کیا اسے شعری لباس پہنا دیا ہے۔ یہ شاعر کے فطری احساسات ہیں ۔
دہرہ دون ایک خالص پہاڑی مقام ہے جہاں کے پہاڑ کی بلندیاں اور وہاں کی خاموشی قابل دید ہے ۔ اگر دل نکتہ شناس ہو اور ذوق لطیف ہو تو پہاڑ کی بلندی اور اس کے ویرانے پر خدا کی قدرت اور اس کے جلوہ اور وجودکو بخوبی محسوس کیا جا تا ہے ۔ دہرہ دون کے پہاڑوں کی خاموشی اپنی زبان حال سے کہہ رہی ہے کہ اگر چشم بینا ہو عقل دانا ہو اور دل حساس ہو تو اس ویرانے اور خاموشی میں بھی قدرت کے حسین اور فطری نظاروں کو دل کی گہرائیوں تک محسوس کیا جاسکتا ہے۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें