تشريحات اشعار نظم
سوال شامل نصاب حمد کے پہلے شعر کی تشریح کیجئے۔
خالق دو جہاں ہے تو ایڈ وڈ والجلال ہے
یکھتا ہے تیری ذات پاک عالی و بے مثال ہے
جواب: - تشریح: پیش نظر شعر شبنم کمالی کی زیر نصاب تم سے ماخوذ ہے اور حمد کا پہلا این شعر ہے ۔ اس شعر میں شاعر نے خداۓ رب العزت کے ربوبیت کا تذکرہ کرتے ہوئے ہے پناہ عقیدت و محبت کا اظہار کیا ہے۔ یوں تو اللہ تعالی کی صفات لامحدود ہیں اور اس کی مکمل تعریف کرنا انسانی قلم کے طاقت سے باہر ہے ۔ تاہم بندہ اپنے طور پر کوشش کرتا ہے کہ خدا کی تعریف و توصیف اور حمد و ثنا میں کوئی کسر باقی ندر ہے۔
چنانچہ شاعر کہتا ہے کہ اے اللہ آپ نے دونوں جہاں یعنی دنیا اور آخرت کو پیدا کیا ہے یہاں تک کہ آپ پورے کا ئنات کے خالق ہی ۔ آپ جلال والے میں حقیقی جاہ و جلال آپ ہی کو زیب دیتا ہے ۔ آپ کی ذات پاک پوری کائنات میں یکتا اور منفرد ہے ۔ آپ کی
ذات پاک عالی اور بے مثال ہے۔
سوال نظم’’انڈیا گیٹ‘‘ کے پہلے بند کی تشریح کیجئے۔
انڈیا گیٹ کی رفعت ہے نگاہوں کے محیط
انڈیا گیٹ وہ تاریخ کا ایک باب جلیل
انڈیا گیٹ وہ افرنگ کی تعمیر جمیل
انڈیا گیٹ وہ اغیار کی نصرت کا نشاں
انڈیا گیٹ وہ اپنوں کی غلامی کی دلیل
جواب: - تشریح:- زیر نظر اشعار جگن ناتھ آزاد کیزیر نصاب نظم انڈیا گیٹ کا پہلا بند ہے اس بند میں شاعر نے دلی میں واقع تاریخی عمارت انڈیا گیٹ کے تاریخی حیثیت کو بیان کیا ہے چنانچہ شاعر فرماتے ہیں کہ انڈیا گیٹ ایک تاریخی عمارت ہے جسے انگریزوں نے ان دور حکمرانی میں دلی میں تعمیر کیا تھا یہ تاریخ کا ایک خوبصورت دروازہ ہے جسے انگریزوں سے نہایت خوبصورت فن تعمیر میں بنوایا تھا انڈیا گیٹ غیروں کے مدد کی ایک علامت ہے اور اپنوں کی غلامی کی دلیل ہے۔ اس لئے کہ اس دروازے کی تعمیر ملک کے غلامی کی حالت میں ہوئی تھی ۔
سوال درج ذیل شعر کی تشریح کیجئے۔
کوئی بجلی کا کھمبا نہیں تھا
گر چاند کا ٹور میلا نہیں تھا
جواب: تشریح: پیش نظر شعر ندا فاضلی کی زیر نصاب نظم’’ بجلی کا کھمبا سے ماخوذ سے اور نظم کا آخری شعر ہے ۔ اس شعر میں شاعر نے سائنسی ایجادات اور اس سے پیدا ہونے والے اخلاقی خرابیوں پر اشاراتی انداز میں روشنی ڈالا ہے۔ چنانچہ سائنس کی ترقی سے قبل کے زمانے پر روشنی ڈالتے ہوۓ شاعر کہتا ہے کہ جس زمانے میں بجلی کا کھمبا نہیں تھا یعنی بجلی کی روشنی نہیں آئی تھی لوگ کر اس تیل کے دور میں جی رہے تھے اس زمانے میں ظاہری طور پر گر چہ روشنی کم تھی لیکن لوگوں کے دل ضرور روشن تھے۔ چاند کا نورمیلا نہیں تھا لینی چاند کی فطری روشنی سے لوگ فیضیاب | ہوتے تھے۔اب ظاہری طور پر بجلی کی روشنی زیادہ ہے مگر دل اور اخلاق کی روشنی بڑھ چکی ہے۔
سوال زیر نصاب نظم’’ہم نو جوان ہیں‘‘ کے پہلے بند کی تشریح کیجئے۔
ہم نوجوان ہیں ، جان بہاراں مرگ خزاں ہیں
شادا بیوں کا گلشن بداماں، اک کارواں میں ہیں
جام وسبو کی ، کیف ونمو، روح یہاں میں ہیں
ہم آتش گل کی رقص کرتی چنگاریاں ہیں
جواب: تشریح:- پیش نظر بند میں شاعر نے نوجوانوں کے جذبات کی ترجمانی کیا ہے جیسا کہ ہم کے عنوان سے ظاہر ہے’’ ہم نو جوان ہیں چنانچہ شاعر نو جوانوں کی زبان میں کہتے ہیں کہ ہم تو جوان میں بہاروں کی جان ہیں اور خزاں کے لئے موت کے سامان میں ۔ ہم اپنے دامن میں شادابیوں کا گلشن رکھتے ہیں ہم ایک قافلہ میں جام وسبو کے لئے ، کیف ونمو کے لئے اور نیچے ہوۓ روح ہیں۔ ہم پھولوں کے آگ کی ناچتی ہوئی چنگاریاں میں ہم نو جوان ایسے جذبات سے بھرے ہوئے ہیں کہ پھول کے آگ کی رقص کرتی ہوئی چنگاریاں میں ہم جذبات کی ایسی چنگاری میں کہ دنیا جس سے گھبراتی ہے ۔
سوال: - درج ذیل شعر کی تشریح کیجئے۔
دولت در دکو دنیا سے چھپا کر رکھنا
آنکھ میں بوند نہ ہو دل میں سمندر رکھنا
جواب: تشریح:۔ پیش نظر شعر احمد فراز کی زیر نصاب پہلی غزل سے ماخوذ ہے اور یہ غزل کا مطلع ہے ۔ اس شعر میں
شاعر نے تو کل، قناعت ،اعلی ظرفی اور اعلی اخلاقی قدروں کا ورس دیا ہے ۔ چنانچہ شاعر یہ کہنا چاہتا ہے کہ انسانی زندگی میں دھوپ چھاؤں نشیب وفراز اور او پچ پچ آتے ہی رہتے ہیں اس لیے درد کا عمومی اظہار نہیں کرنا چاہیئے ۔ در دایک قیمتی دولت ہے جس کو چھپا کر رکھنا چاہیے ۔ یہی اعلی ظرفی کا تقاضا ہے آنکھ میں گر چہ اشکوں کا بوند بھی نہیں ہولیکن دل کو سمندر کی طرح وسیع رکھنا چاہیے یعنی معاشی تنگی اور موافق حالات کے باوجود دل میں تنگی نہیں آنی چاہیئے اور اسے سمندر کی طرح وسیع اور گہرارکھنا چاہیئے ساتھ ہی غموں کے ہجوم کو بھی اعلی ظر فی اور قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے لوگوں کی نظر سے چھپا کر رکھنا چاہیے یعنی غم کا اظہارلوگوں کے سامنے نہیں کرنا چاہئے ۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें