حصــــه نثـ
طويل سوالات مع جوابات
سوال افسانہ’’پر امس‘‘ کی روشنی میں آج کے عہد کے انسانی رشتوں پر اظہار خیال کیجئے؟ 1
جواب جیلانی بانو کے زیر نصاب افسانہ پرامس‘‘ میں آج کی تیز رفتار مادی زندگی میں انسانی رشتوں کے کھو کھلے بن پر ضرب کاری لگائی گئی ہے ۔ چنانچہ اس کہانی میں ایک ضعیف ماں کی بے بسی کا المیہ ہے ۔ کہانی میں ایک ضعیف ماں کوامو کی کردار کے شکل میں پیش کیا گیا ہے ۔امودوسالوں سے بستر مرگ پر بے یارو مددگار پڑی ہوئی ہیں ۔ ان کو کینسر جیسے موذی مرض کا عارضہ ہو گیا ہے کسی وقت بھی ان کی موت واقع ہو سکتی ہے امو کے چار بیٹے ہیں جن میں تین بڑے ڈاکٹر انجینئر بن کر امریکہ میں خوش حال زندگی گذارد ہے ہیں چھوٹا بیٹا ہندوستان میں مقیم ہے لیکن سیاسی مصروفیات میں اس کو ماں کو دیکھنے کی فرصت نہیں ہے۔ چاروں بیٹوں نے ماں کے جنازے کو کندھا دینے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ جب علالت کی سنگینی کی خبر معلوم ہوئی تو تینوں بیٹے اپنے وعدے کی تکمیل کے لئے ہندوستان آۓ بھی ،لیکن محد ودفرصت کی وجہ سے موت سے قبل ہی چلے گئے۔ یہاں تک کہ ایک دو روز میں ہی امہ کی موت واقع ہوگئی تو چھوٹا بیٹا بھی ہندوستان میں رہنے کے باوجود جنازہ میں نہیں آیا۔ امو کے اپنوں کو صرف اپنی پری تھی ۔ دل سے نہیں چاہنے کے باوجود بخش دیا اور ماں سے دکھاوے کی محبت نباہنے کے لئے اپنی اپنی کوشش میں یکے بعد دیگرے تمام بھائی بے نقاب ہو گئے
افسانہ میں بیان کئے گئے واقعات اور ادا کئے گئے مکالمات سے صاف واضح ہو جاتا ہے کہ موت کے ہاتھوں جھول رہی ماں سے اس کے بیٹوں کے رشتے میں کھوکھلا پن تصنع اور ریا کاری بلکہ مکاری آگئی تھی ۔ اس دور کے مادہ پرست ، جاو طلب اور فیش پسند ماحول نے ماں جیسے مقدس رشتوں کے لئے ان کے دلوں سے محبت واخلاق جیسی اعلی انسانی قدروں کو چھین کر رکھ لیا تھا۔ وہ حد درجہ سفاک، بے در داور بے رحم بن چکے تھے ۔ابھی ماں کی موت واقع ہوئی نہیں اور اسے نزع کے عالم میں ہی چھوڑ کر چپکے سے بھی رخصت ہو گئے اور انسانی رشتوں کا عملی طور پر مذاق اڑایا۔
2 سوال پرامس‘‘افسانے کا خلاصہ پیش کیجئے؟
جواب - پیش نظر افسانہ’’پر امس‘‘ جیلانی بانو کا ایک حقیقت پسندافسانہ ہے ۔اس افسانہ میں جاہ طلبی اور مادہ پرستی کے نتیجہ میں انسانی رشتوں کے کھوکھلے پن کی عکاسی کی گئی ہے ۔ کہانی کچھ یوں ہے کہ ہندوستان کے ایک متمول خاندان میں امو نام کی ایک خاتون ہیں ۔امواس کہانی کی مرکزی کردار بھی ہیں اور ایک جا گیر دار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں ۔ان کے شوہر وکیل ہیں جن کی وکالت برائے نام ہی چلتی ہے ۔ ایک ذی شعور خاتون ہونے کی وجہ سے امو نے اپنے بیٹوں کو اعلی تعلیم دلوائی ۔ ان کے چار بیٹے بالترتیب اس طرح میں : جمشید ، خورشید ، رشیداورحمید ۔ جن میں تینوں بڑے بیٹوں کوامو نے جانداد بیچ کر ڈاکٹر اور انجینئر وغیرہ بنوایا۔ لیکن چھوٹا بیٹا حمید پڑھنے کی طرف راغب نہیں تھا چنانچہ اس نے ایک سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کر لیا اور رفتہ رفتہ مرکز میں وزیر کے عہدے تک پہنچ گیا۔ تینوں بڑے بیٹے امریکہ کے مختلف مقامات پر ملازمت کے وجہ سے ماں کو چھوڑ کر امر یکہ چلے گئے اور وہاں خوش حال زندگی گذارنے لگے اور بال بچوں کی امریکن تعلیم میں ہمہ تن مصروف ہو گئے ۔
- اسی بیچ اموکو کینسر جیسے موذی مرض نے دبوچ لیا۔ اب وہ دوسالوں تک صاحب فراش ہی رہیں ،ٹیلیفون کے ذریعہ بھی اگر ماں سے بیٹوں کی گفتگو ہو جاتی تھی ۔ ج کینسر کا مرض لاحق ہو گیا اور امو کے پورے دو سال ہو گئے ت فون سے بھی باتیں کم ہونے لگی امو کے بھی بیٹے او بھائی نے یہ عہد کیا تھا کہ ہم لوگ ماں کے جنازہ میں ماں کی میت کو کاندھاد میں گے اور بھی بیٹے شریک سفر ہو گئے ۔ جب ماں کی حالت نازک ہو چلی تو بیٹوں کو فون کیا گیا تینوں امریکہ والے بیٹے آۓ بھی لیکن ان کے پاس چھٹیاں محدود تھیں اور ماں کی موت میں کئی دنوں تاخیر ہوگئی اس لئے وہ لوگ ڈالر اور ریال دے کر چلے گئے یہاں تک کہ چھوٹا بیٹا حمید بھی ہندوستان میں رہتے ہوۓ جنازے میں شریک نہیں ہو سکا اور ماں اپنی کھو خواہش لے کر دنیا سے چلی گئی۔
3.سوال سے افسانہ ابراہیم سقہ‘‘ کے پیش نظر سلام بن رزاق کی جذبات نگاری پر روشنی ڈالئے؟
جواب زیر نظر افسانہ ابراہیم س‘‘ سلام بن رزاق کا ایک جذباتی افسانہ ہے اس افسانے میں سلام بن رزاق نے جذبات نگاری پر بھر پور توجہ دی ہے۔ افسانہ کے مرکزی کردار ابو ( ابراہیم سقہ ) کی تراش خراش جس انداز سے افسانہ نگار نے کیا ہے اس سے افسانہ نگار کے جذبات نگاری کی صلاحیت کا اظہار ہوتا ہے۔
اس کہانی میں ایک بھشتی کا واقعہ اس طرح سے بیان کیا گیا ہے کہ جو بہ بظاہر اپنے کردار کے اعتبار سے ایک عام اور معمولی آدمی نظر آ تا ہے ۔ مگر اس کی شخصیت کے اندر جس قسم کیقابل توجہ خاص اور غیر معمولی خصوصیات پوشیدہ ہیں جو تو در منظر آتی ہیں اور ان پر سے ایک کے بعد ایک تہہ کھولنے اور اس کے ساتھ ہی اس کی کی زندگی کے انجام کے پیش کش میں سلام بن رزاق نے بے پنا تخلیقی صلاحیت کا مظاہر کیا ہے ۔ بالکل معمولی شکل وصورت کا بیغریب بھشتی اپنی زندگی کی تکالیف محرومیاں اور اس کی حسرتوں سے اچھی طرح واقف ہے ۔ وہ فطرتاً خودداراورمخنتی ہے وہ کسی کے رحم و کرم اور دوسرے کے ٹکڑوں پر جینا نہیں چاہتا ہے ۔ یہ تمام باتیں کہانی کے راوی کی معرفت کئی واقعات اور اس کے کردار کے مختصر مکالموں کے ذریعہ اس افسانہ میں عمدہ فنکاری کے ساتھ بیان ہوۓ ہیں ۔ کسی کو چاہنے اور چاہے جانے کی خود اس کردار کے اندرونی اور پوشیدہ احساسات کی ایمائی اور اس کے عشق کے الم ناک انجام کی ڈرامائی پیش کش میں سلام بن رزاق نے جذبات نگاری کے کمال کا مظاہرہ کیا ہے۔
4
سوال "ٹوبہ ٹیک سنگھ افسانہ کی روشنی میں لاہور کے پاگل خانے کی تفصیل قلمبند کیجئے؟
جواب تقسیم ملک کے دو تین سالوں کے بعد ہندوستان اور پاکستان دونوں حکومتوں کو اچانک یہ خیال آیا کہ جس طرح اخلاقی قیدیوں کا دونوں ملکوں میں تبادلہ ہوا ہے اسی طرح پاگلوں کا بھی تبادلہ کر دیا جائے ۔ اس طرح دونوں ملکوں کی اعلی سطحی میٹنگ ہوئی ۔ جس میں دونوں ملکوں کے افسروں کی طرف سے پاگلوں کے تبادلے کے لئے ایک دن مقرر ہو گیا اور پاکستان میں ہندو سکھ پاگلوں کو پولس کی حفاظت میں سرحد پر پہنچادیا گیا۔
ادھر پاکستان میں لاہور کے پاگل خانے میں جب پاگلوں کے تبادلے کی خبر پہنچی تو پاگلوں کے درمیان دلچسپ چدی گوئیاں ہونے لگیں ۔ ایک مسلمان پاگل جو بارہ برس روزانہ ’’زمیندار اخبار پڑھتا تھا اس سے جب اس کے دوست ن پوچھا’مولبی صاحب‘‘ یہ پاکستان کیا ہوتا ہے؟ ا مسلمان پاگل نے بڑے غور وفکر کے بعد جواب دیا ’’ہندوستان میں ایک ایسی جگہ ہے جہاں استرے بنتے ہیں‘‘ یہ جواب سن کر اس کا دوست مطمئن ہو گیا۔ ایک دن ایک مسلمان پاگل نے نہانے کے دوران اس زور سے پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کیا کہ فرش پر پھسل کر گر پڑا اور بے ہوش ہو گیا۔ بعض پاگل ایسے بھی تھے جو درحقیقت پاگل نہیں تھے بلکہ ان میں اکثریت ایسے قاتلوں کی تھی جن کے رشتہ داروں نے افسروں کو پکچھ رشوت دے کر انہیں پاگل خانے بھیجوادیا تھا تا کہ وہ پھانسی کی سزا سے محفوظ ر ہیں ۔ ان میں ایک پاگل ایسا بھی تھا جو پاکستان ہندوستان اور ہندوستان و پاکستان کے چکر میں کچھ اس طرح گرفتار ہوا کہ اورہے خصوصا ہندوستان جیسے ملک میں جہاں ملک کی ساٹھ فیصد آبادی گاؤں میں رہتی ہے اور غریب بھی ہے۔ تو ایسے غربا اکیسویں صدی میں بھی مٹی کے تیل کے سہارے ہی جیتے ہیں ۔
5 سوال و ٹوبہ ٹیک سنگھ کے کرب کو اپنے الفاظ میں بیان کیجئے؟
جواب زیر نصاب ٹو بہ ٹیک سنگھ میں لفظ ٹو بہ ٹیک سنگھ علامتی طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ تو یہ ٹیک سنگھ ہندوستانی پنجاب میں ایک گاؤں کا نام تھا۔ وہیں کا رہنے والا ایک سکھ تھا جس کا نام بشن سنگھ تھا اسے لوگ ٹو بہ سنگھ بھی کہتے تھے۔ بشن سنگھ کو اپنا گاؤں اور رشتہ داروں کی برابر یا دآتی تھی خاص طور سے اس کی بہن روپ کور جو اس سے بچھڑ گئ تھی اپنے خاندان اور بہن کی جدائی کے کرب میں وہ سوچ سوچ کر پاگل ہو گیا تھا اور اس وقت لاہور کے پاگل خانے میں پندرہ سالوں سے رہ رہا تھا۔ پاگل خانے میں ہر وقت اس کی زبان سے یہ عجیب وغریب الفاظ سنائی دیتے تھے ۔ اوپ دی گڑگڑ دی ایکس دی بے دھیا نا دی منگ دی دال آف پاکستان گورنمنٹ‘‘۔ لیکن بعد میں آف دی پاکستان گورنمنٹ‘‘ کی جگہ’’ آف دی ٹو بہ ٹیک سنگھ گورنمنٹ‘‘ نے لے لی ۔ وہ پاگلوں سے ہر وقت نہیں پو چھتار ہتا تھا کہ ٹو بہ ٹیک سنگھ کہاں ہے جہاں کا وہ رہنے والا ہے۔ لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ وہ پاکستان میں ہے یا ہندوستان میں ۔
بشن سنگھ یا ٹو بیسنگھ بھی سوتا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ جیل کے پہرے داروں کا کہنا تھا کہ پندرہ سالوں سے سونا تو دور وہ لیٹا بھی نہیں تھا۔ کبھی کبھی کسی دیوار سے ٹیک لگا کر وہی عجیب وغریب الفاظ و ہرانے لگتا۔ وہ نہاتا بھی بہت کم ہی تھا اس لئے اس کے داڑھی اور سر کے بال آپ میں جم گئے تھے ۔ گاؤں اور اپنوں سے جدائی ہی اس کا ذاتی کرب تھا۔ جس کرب میں بشن سنگھ پاگل ہو گیا تھا اورٹو بہ ٹیک سنگھ اس کے لئے کرب کی علامت بن چکا تھا۔
6سوال انشائیے میں مزاح کی کیا اہمیت ہے واضح کیجئے
جواب مزاح کا عنصر انشائیہ کے لئے ایک اضافی خصوصیت ہے یعنی مزاح انشائیہ کے لئے لازمی عنصر نہیں ہے۔ چناچ مشرقی ادبیات میں بہت سے الفاظ انشائے ہمیں ایسے بھی ملیں گے جن میں خیال اور اسلوب کی تازگی ہی سب کچھ ہے اور مزاح کا عنصر بھی نہیں ہے لیکن انشائیہ اعلیٰ درجہ کا ہے۔ پھر بھی یہ نکتہ قابل غور ہے کہ جس انشائیہ میں طنز و مزاح کا عنصر نمایاں طور پر رہتا ہے ۔ اس انشائیہ کا مزاج ہی بدل جاتا ہے اور انشائیہ نگار انکشاف ذات کے عمل کو چھوڑ کر تھوڑی دیر کے لئے ایک مسخرہ کے طریقہ کو اپنالیتا ہے۔اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ طنز کی پیدائش کہاں سے ہوئی ؟ طنز دراصل زندگی کی ناہمواریوں سے پیدا ہوتی ہے اور طنز نگاران ناہمواریوں سے اوپر اٹھ کر بلندی سے آپ کو مخاطب کرتا ہے جبکہ مزاح کا معاملہ اس کے برعکس ہے ۔مزاح نگار زندگی کی عمومی سطح سے نشیب میں اتر تا ہے اور وہاں سے آپ مخاطب کرتا ہے ۔ وہ چونکہ خود زندگی کی ناہمواریوں سے ہم آہنگ رہتا ہے اور اس کے لئے قدرتی طور پر اس کا رد عمل ہمدردی سے بھرارہتا ہے ۔ لیکن انشائیہ نگار ہموار سطح پر آپ سے مخاطب ہوتا ہے ۔انشائیہ نگار کے لئے طنز مزاح کا استعمال شجر ممنوع نہیں ہے لیکن مزاح کا استعمال کر کے بھی انشائیہ نگار اپنے مرکزی نقطے کی طرف آ جا تا ہے ۔لیکن مزاح نگارنشیب کے نقطے سے ایک قدم بھی او پرنہیں جاتا اس کے لئے ذراسی جنبش مہلک ثابت ہوسکتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ انشائیہ اور مزاحیہ مضمون میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔
कोई टिप्पणी नहीं:
एक टिप्पणी भेजें